EN हिंदी
روبرو جاناں | شیح شیری
ru-ba-ru jaanan

نظم

روبرو جاناں

ایوب خاور

;

ہمیں اب تک تری کچھ بھی نہ کہنے والی آنکھوں سے یہ شکوہ ہے
جو کمسن خواب ان آنکھوں میں منظر کاڑھتے تھے

وہ کبھی تیرے لبوں کے پھول بنتے اور ہمارے
دامن اظہار میں کھلتے

ہمیں ان مسکراتے چپ لبوں سے بھی شکایت ہے
ہمارے شعر سن کر کھلکھلاتے تھے مگر کچھ بھی نہ کہتے تھے

نہ جانے ایسے لمحوں میں تری سوچوں پہ کیا کیا رنگ آتے تھے
تجھے ہم سے چھپانے کے

بھی تو سب ڈھنگ آتے تھے
ہمیں تیری محبت سے بھی شکوہ ہے

سمندر جیسی گہری تھی
مگر آنکھوں کے چھاگل سے چھلکتی تھی جو ہم ایسے

فقیروں کے دلوں پر اس طرح برسی
کہ ہریالی نے گھر اور دشت کی پہچان سے

بیگانہ کر کے رکھ دیا
ہم کو یہ دنیا صرف تیرے حسن کی تجسیم لگتی تھی

سو ہم بھی اور ہمارے خواب بھی آنکھیں بھی چہرہ بھی
سبھی کچھ تیری خاطر تھا

مگر تیری محبت نے
ہمیں اس چپ چپنے کھیل میں جو دکھ دیے

اب تک انہیں تیری سراب آنکھوں سے
آئینہ مثال اک گفتگو کی آرزو ہے روبرو جاناں