موت سے کیوں ڈروں میں آج بھلا
موت تو زندگی کی وسعت ہے
جس ممات سے ڈرتے ہیں لوگ
وہ تو پا چکا تھا بہت پہلے میں
میرے ارمانوں کی موت
میرے جذبات کی موت
اپنوں سے ملاقات کی موت
ان سارے محاکات کی موت
کون روئے گا بھلا اس کمیں کی کھٹیا پر
مر گیا تھا ان کے لئے ایک عہد ہی پہلے
سب مجھے چھوڑ چلے چھوڑ چلے چھوڑ چلے
اب کہیں سے خبر نہیں آتی
اپنی یاسین خود ہی پڑھ لوں گا
نظم
رو بروئے مرگ
اخلاق احمد آہن