زخم پھر ہرے ہوئے
پھر لہو تڑپ تڑپ اٹھا
اندھے راستوں پہ بے تکان اڑان کے لیے
بند آنکھ کی بہشت میں
سب دریچے سب کواڑ کھل گئے
اور پھر
اپنی خلق کی ہوئی بسیط کائنات میں
دھند بن کے پھیلتا سمٹتا جا رہا ہوں میں
خدائے لم یزل کے سانس کی طرح
میرے آگے آگے اک ہجوم ہے
جس کو جو بھی نام دے دیا وہ ہو گیا
میرے واسطے سے سب کے سلسلے
بندھے ہوئے ہیں سب کی موت زندگی
میرے واسطے سے ہے
زمین و آسماں کے بیچ
جس کو بھی پناہ نہ مل سکے
وہ آئے میرے ساتھ ساتھ
منتظر ہے آج بھی
فضا جو لفظ لفظ پر محیط ہے
عمیق اور بسیط ہے
مجھے بھی آج تک نہ مل سکا
تماشا گاہ روز و شب کا بیج
اپنے طور پر
نئے سرے سے جس کو بو سکوں
کہاں کے سلسلے
کیسے واسطے
رگوں میں صرف اس قدر لہو بچا ہے
پنکھ پنکھ میں
کچھ ہوا سمیٹ کر
آخری اڑان بھر سکوں
بے محابہ سوچ
آندھیوں سی سوچ میں
صرف ہو رہا ہوں میں
ہر تھپیڑا مرے نقش چاٹ چاٹ کر
دھند بن رہا ہے
دھند گہری ہو رہی ہے
گزرتے وقت سے میں جڑ رہا ہوں
جڑ گیا ہوں
اپنا کام کر چکا ہوں
نظم
رستگاری
قاضی سلیم