ہم جانتے ہیں
یہ دنیا ہمیں جینے نہیں دے گی
فاصلے کی دیواریں
ہم دونوں کے درمیان
بڑھتی رہیں گی
یہ کیسا رشتہ ہے
ہم دونوں اپنے اپنے احساسات سے واقف ہیں
مگر یہ رسم و رواج
آدمی سے آدمی کی تفریق کے۔۔۔
ہم دونوں محض اپنی آنکھوں کے علاوہ
ایک دوسرے کو چھو نہیں سکتے
آب زم زم یا گنگا جل
ایک رنگ، ایک خمار اور ایک احساس
کیوں نہ ہم دونوں
ایک آفاقی رشتے سے
منسلک ہو جائیں
ایسے رشتے سے
کہ جہاں تلواریں جھک جاتی ہیں
اور انگارے بن جاتے ہیں پھول
اور نیلا آسمان مسکرا اٹھتا ہے
آؤ آج
تم میری کلائی میں یہ راکھی باندھ دو
ہم دونوں اپنی اپنی
انوکھی چاہت کے حوالے سے
بن جائیں جنم جنم کے ساتھی
اٹوٹ ہو جائیں گے جب
پھر شاید زمانہ انگلی نہیں اٹھا سکے گا!!
نظم
رشتے کی سچائی
احسان ثاقب