EN हिंदी
ریت اور درد | شیح شیری
ret aur dard

نظم

ریت اور درد

باقر مہدی

;

مدتیں گزریں مرے دل کو ہوئے ویرانہ
آندھیاں بھی نہیں آتیں

کہ اڑے ریت مٹے نقش سراب
اور اک درد کا چشمہ

مندمل زخموں سے پھوٹے نئی خنکی لے کر
پیاس جاگ اٹھے سکوت دل مضطر ٹوٹے

تاکہ میں دیکھ سکوں
اپنی بے خواب سی آنکھوں سے وہ منظر اک دن

ریت کے تودے فضاؤں میں اڑے جاتے ہیں
اور خوش ہو کے کہوں

زندگی ریت سہی درد کا چشمہ بھی تو ہے