تیرے آتش فشانوں سے بہتے ہوئے
سرخ سیلاب کی پیش گوئی
اولمپس کے آتش کدے سے
سنہری حرارت کی راحت چرا کر
پرومیتھیس کے زمیں پر اترنے سے پہلے
بہت پہلے تاریخ کے غار میں ایک
سہ چشمے عفریت نے اس کہانی میں کی تھی
جسے پڑھ کے خود اس پہ دیوانگی کا وہ دورہ پڑا
خود کو اندھا کیا
پھر سناتا رہا داستاں اندھی طاقت کی
بربادیوں پر رلاتا رہا
آنکھ سے سات ساگر بہے
ریت لیکن ہمیشہ کی پیاسی
بجھاتی رہی آنسوؤں سے مرے پیاس کی آگ کو
تو نہیں جانتا ریت کی پیاس کو
ریت کی بھوک کو
ریت کی بھوک ایسی کہ جس میں سما جائیں
لوہا اگلتے پہاڑوں کے سب سلسلے
پیاس ایسی کہ جس میں اتر جائیں
سارے سمندر
ترے آنسوؤں کے
مگر تیرے آنسو ٹپکنے میں کچھ دیر ہے
دیر کتنی لگی
ہاتھیوں کی قطاروں کو
زیر زمیں
تیل اور تار بننے کی میعاد سے خوب واقف ہے تو
تو اسی تیل کی بو پہ پاگل ہوا
اور دھمکتا دھرپتا ہوا
آ گیا ریت کے راج میں
وقت کے آج میں
وقت کا آج تیرا ہے جس میں
مریخ و مرائخ سے آگے رسائی ہے تیری
مگر ریت تو پر نہیں طاقت پر نہیں دیکھتی
پاؤں کو تولتی ہے
کسے سولتی ہے
نظم
ریت
علی محمد فرشی