میز پر اخبار کے پھیلے ورق
بکھرے بکھرے تیرہ تیرہ چاک چاک
ڈھل گئی ہے قالب الفاظ میں
سینۂ ہستی کی آہ دردناک
پاس ہی دیوار کو ٹیکے ہوئے
ریڈیو گرم سخن محو بیاں
چیختی ہیں جامۂ آواز میں
خون کے چھینٹے لہو کی بوندیاں
شام ریڈنگ روم کی مغموم شام
چند کان اعلانچی کی بات پر
چند آنکھیں سوچ میں ڈوبی ہوئیں
مرتکز اخبار کے صفحات پر
ایک کمرے میں سمٹ کر آ گئے
کتنے دکھڑوں کے صدا پیکر حروف
کتنے دردوں کے مسطر زمزمے
کتنے اندھے گیانی بہرے فلیسوف
پھر بھی کچھ ادراک میں آتا نہیں
کیا ہے رقص گردش ایام کیا
اک شکستہ ناؤ اک خونی بھنور
کیا ہے اس افسانے کا انجام کیا
یہ مفکر کچھ سمجھ سکتے نہیں
چھت کے نیچے روزنوں کے درمیاں
گول گول آنکھوں کے اندر محو دید
کالے پارے کی مرقص پتلیاں
کاش یہ حیراں کبوتر جانتے
خفتہ ہے ان کاغذوں کی سطح پر
کتنے پھنکتے آشیانوں کا دھواں
کتنے نخچیروں کی آہوں کے شرر
ہیں ان آوازوں کے اندر پر کشا
کتنے کرگس جن کو مرداروں کی بو
کھینچ لائی ہے سر دیوار باغ
چھت کے نیچے مضطرب نظارہ خو
فکر مند آنکھوں میں حیراں پتلیاں
یہ کبوتر دیکھتے تھکتے نہیں
دیکھتے ہیں سوچتے ہیں کیا کریں
یہ مفکر کچھ سمجھ سکتے نہیں
نظم
ریڈنگ روم
مجید امجد