رواں ہوں میں
اور اس روانی میں
عہد در عہد کی جراحت نما بصارت کی خاک کا وہ بھنور ہے
جس میں
مرے شب و روز کا غبار سیہ
مرے سنگ گھومتا ہے
رواں ہوں میں
اور خود پہ اور سب پہ ہنس رہا ہوں
کہ میری مانند ہم سبھی وقت کی کھڑی سائیکل کا
گردش پذیر پہیہ ہیں نا مسافت نو رو گرداں
کہ نارسائی کے خشت خانوں کی چمنیوں سے نکلنے والے
حروف پسپا کے سب دھوئیں صرف رائیگاں ہیں
یہ محور خاک کیا ہے
کس گردش معلق کا استعارہ ہے
ہم کہاں ہیں
میں ہنس رہا ہوں
سفید مو سر پہ کہل عمری کی برف رکھے
کہ آج میں اپنے عہد کا اور شہر کا وہ ضمیر بھی ہوں
جو آج اور کل کے موڑ پر ہے
جو دیکھتا اور سوچتا ہے
کہ ہم بزرگان صاحب اختیار کی عمر خوردہ دانش
کھڑے سفر کے اسیر وقتوں کی کیسی زنجیر بن گئی ہے
کہ جو ہماری سیہ شب خاک سے لپٹ کر
سبھی کی تقدیر بن گئی ہے
جو آج سے ملنے والے کل کی ہر ایک ساعت پہ حلقہ حلقہ اتر رہی ہے
جو سوچتا ہے
کہ ہم بزرگان صاحب اختیار کی آنکھ خود سے کٹ کر
ہماری نوحہ گری کی آراستہ شبیہوں کو کل کے امکان کے نشروں کو کب پڑے گی
جو سوچتا ہے
کہ یہ سلاسل کی رات لمبی ہے
اور نہ جانے طلوع صبح نجات کب ہو
کہ ہم بزرگان صاحب اختیار کے فیصلے کی ساعت
ہمارے خوابوں کے ساتھ کب ہو
نظم
رواں ہوں میں
اقبال کوثر