آج بھی کتنی ان گنت شمعیں
میرے سینے میں جھلملاتی ہیں
کتنے عارض کی جھلکیاں اب تک
دل میں سیمیں ورق لٹاتی ہیں
کتنے ہیرا تراش جسموں کی
بجلیاں دل میں کوند جاتی ہیں
کتنی تاروں سے خوش نما آنکھیں
میری آنکھوں میں مسکراتی ہیں
کتنے ہونٹوں کی گل فشاں آنچیں
میرے ہونٹوں میں سنسناتی ہیں
کتنی شب تاب ریشمی زلفیں
میرے بازو پہ سرسراتی ہیں
کتنی خوش رنگ موتیوں سے بھری
بالیاں دل میں ٹمٹماتی ہیں
کتنی گوری کلائیوں کی لویں
دل کے گوشوں میں جگمگاتی ہیں
کتنی رنگیں ہتھیلیاں چھپ کر
دھیمے دھیمے کنول جلاتی ہیں
کتنی آنچل سے پھوٹتی کرنیں
میرے پہلو میں رسمساتی ہیں
کتنی پائل کی شوخ جھنکاریں
دل میں چنگاریاں اڑاتی ہیں
کتنی انگڑائیاں دھنک بن کر
خود ابھرتی ہیں ٹوٹ جاتی ہیں
کتنی گل پوش نقرئی بانہیں
دل کو حلقے میں لے کے گاتی ہیں
آج بھی کتنی ان گنت شمعیں
میرے سینے میں جھلملاتی ہیں
اپنے اس جلوہ گر تصور کی
جاں فزا دل کشی سے زندہ ہوں
ان ہی بیتے جوان لمحوں کی
شوخ تابندگی سے زندہ ہوں
یہی یادوں کی روشنی تو ہے
آج جس روشنی سے زندہ ہوں
آؤ میں تم سے اعتراف کروں
میں اسی شاعری سے زندہ ہوں
نظم
روشنیاں
جاں نثاراختر