کسی گمان کا سایہ نہ شک کی پرچھائیں
سراب ہے نہ جھروکہ نظر کی راہوں میں
یقین ہے کہ اندھیرا فقط اندھیرا ہے
فریب نور کوئی بھی نہیں نگاہوں میں
نہ انتظار کے معنی نہ صبر کے پیماں
کسی دشا میں افق بھی نظر نہیں آتا
سیاہی کالی سہی روشنائی ہے پھر بھی
نہ آئے گر کوئی ورق سحر نہیں آتا
اندھیرا جتنا جواں ہے بھروسے مند اتنا
اسی کے دم سے چراغ خیال روشن ہے
ارادے دل کی تپش لے کے جگمگاتے ہیں
رہ جواب پہ حسن سوال روشن ہے
چلو ستاروں کو کھوجیں جلا کے مشعل دل
افق نہیں ہے تو جگنو قطار بند کریں
سحر کی چاہ جواں ہے تو ڈھونڈھ لیں سورج
نہیں ملے کوئی سورج کرن کرن سے بنیں
یقین ہے کہ اندھیرا فقط اندھیرا ہے
سیاہی کالی سہی روشنائی ہے پھر بھی
ارادے دل کی تپش لے کے جگمگاتے ہیں
نظم
روشنائی
اشوک لال