EN हिंदी
رو میں ہے رخش عمر | شیح شیری
rau mein hai raKHsh-e-umr

نظم

رو میں ہے رخش عمر

بلراج کومل

;

رہ گزر پر شور و غل کا سیل ہے
بہہ رہا ہے خشک تنکے کی طرح

یہ جہان رنگ و بو
گھومتے پہیوں دھڑکتی گاڑیوں کی ہچکیاں

داستاں در داستاں الجھی ہوئی ہیں چار سو
درد سے سہمے ہوئے خوابوں کے لاکھوں قافلے

گامزن ہیں سوئے حسرت حوصلے تھامے ہوئے
میں بھی ان میں تم بھی ان میں ساری دنیا ان میں ہے

خامشی بھی نغمگی بھی اشک و خوں بھی ان میں ہے
کچھ نگاہیں عرش پر ہیں کچھ نگاہیں فرش پر

وقت آندھی کی طرح
کر رہا ہے تیز تر اس سیل کو

ہم کہاں ہیں کون سی منزل پہ ہیں
کوئی بتلاؤ کوئی آواز دو

کوئی بتلاؤ کوئی آواز دو