رسم اندیشہ سے فارغ ہوئے ہم
اپنے داماں کی شکن میں سمٹے
کف ایام کی پر پیچ لکیروں میں کہیں
اپنے آئندۂ نادیدہ سے سہمے ہوئے ہم
گاہ اجمال گذشتہ پہ گلو گیر ہوئے
جیسے دھل جائے گا بیچاری روایات کے شانوں کا غبار
چند بیمار ارادوں کی عیادت چاہی
گاہ نایاب دعاؤں کا شمار
اور تقریر کے پیچیدہ سوالات کو دہراتے ہوئے
ایک اک کر کے سب احباب نے رخصت چاہی
رسم اندیشہ کی تقریب ملاقات سے فارغ ہوئے ہم
رسم اندیشہ کسی اور زمانے کا گناہ
اور دنیاؤں کا جرم
جس کی زنجیر مکافات میں الجھے ہوئے ہم
اپنے اجداد کے آثار کے دیرینہ فقیر
کاسہ بر دوش سر دست عطا جاتے ہیں
موت بر دوش سر دست عطا جاتے ہیں
موت اور وصل کی تعبیر پہ سرگرم کلام
اپنی تاریخ کا انصاف بجا لاتے ہیں
رسم اندیشہ کی تاریخ مکافات
کے مارے ہوئے ہم

نظم
رسم اندیشہ سے فارغ ہوئے ہم
آذر تمنا