EN हिंदी
رقص کی رات | شیح شیری
raqs ki raat

نظم

رقص کی رات

ن م راشد

;

رقص کی رات کسی غمزۂ عریاں کی کرن
اس لیے بن نہ سکی راہ تمنا کی دلیل

کہ ابھی دور کسی دیس میں اک ننھا چراغ
جس سے تنویر مرے سینۂ غم ناک میں ہے

ٹمٹماتا ہے اس اندیشے میں شاید کہ سحر ہو جائے
اور کوئی لوٹ کے آ ہی نہ سکے!

رقص کی رات کوئی دور طرب
بن نہ سکتا تھا ستاروں کی خدائی گردش؟

محور حال بھی ہو، جادۂ آئندہ بھی
اور دونوں میں وہ پیوستگئ شوق بھی ہو

جو کبھی ساحل و دریا میں نہ تھی،
پھر بھی حائل رہے یوں بعد عظیم

لب ہلیں اور سخن آغاز نہ ہو
ہاتھ بڑھ جائیں مگر لامسہ بے جان رہے؟

تجھے معلوم نہیں،
اب بھی ہر صبح دریچے میں سے یوں جھانکتا ہوں

جیسے ٹوٹے ہوئے تختے سے کوئی تیرہ نصیب
سخت طوفان میں حسرت سے افق کو دیکھے:

کاش ابھر آئے کہیں سے وہ سفینہ جو مجھے
اس غم مرگ تہہ آب سے آزاد کرے

رقص کی شب کی ملاقات سے اتنا تو ہوا
دامن زیست سے میں آج بھی وابستہ ہوں،

لیکن اس تختۂ نازک سے یہ امید کہاں
کہ یہ چشم و لب ساحل کو کبھی چوم سکے!