EN हिंदी
رنگون کا مشاعرہ | شیح شیری
rangoon ka mushaera

نظم

رنگون کا مشاعرہ

سید محمد جعفری

;

مجھے رنگون سے جب دعوت شعر و سخن آئی
طبیعت فاصلے اور وقت کے چکر سے گھبرائی

دل برگشتہ کو لیکن یہ میں نے بات سمجھائی
''نہیں کچھ سبحہ و زنار کے پھندے میں گیرائی''

''وفاداری میں شیخ و برہمن کی آزمائش ہے''
وہاں رنگینئ شعر و سخن کی آزمائش ہے

کراچی سے پیا کی گود میں ہندوستاں آیا
نئی دہلی سے کہنے کو پرانی داستاں آیا

جوانی کے لیے یادیں میں سوئے گلستاں آیا
برائے اہل محفل اور بہ یاد رفتگاں آیا

وہ مسکن تھا وہ مدفن ہے بہت سے اہل ایماں کا
''وہ اک گلدستہ ہے ہم بے خودوں کے طاق نسیاں کا''

وہ ایسی سرزمیں ہے جس میں اہل دل ابھی تک ہیں
جو شیخ و برہمن اردو کے ہیں قابل ابھی تک ہیں

نشان میرؔ و غالبؔ، داغؔ اور سائلؔ ابھی تک ہیں
جو شمعیں بچ گئی ہیں رونق محفل ابھی تک ہیں

''نمی گویم دریں گلشن گل و باغ و بہار از من
''بہار از یار و باغ از یار و گل از یار و یار از من''

اڑا دہلی سے اور اڑ کر میں کلکتہ میں آ پہنچا
تھکا ہارا ہوا ساحل پہ جیسے ناخدا پہنچا

میں اپنے سننے والوں کے لیے بن کر صدا پہنچا
چلا اردو کی خاطر از کجا اور تا کجا پہنچا

مری اردو تری الفت میں اب رنگون آیا ہوں
ترے عشاق کی محفل میں کچھ مضمون لایا ہوں