EN हिंदी
رنگ | شیح شیری
rang

نظم

رنگ

ذیشان ساحل

;

لڑکی
تصویریں بناتی ہے

سفید کاغذ پر
ادھر سے ادھر کو

بہت ساری لکیریں ڈالتی ہے
ان میں کوئی بھی لکیریں

ایک دوسرے کو چھو کر نہیں گزرتی
شہر سے باہر جانے والی سڑکوں کی طرح

سب لکیریں
کسی نئی جگہ پہنچا دیتی ہیں

ہم وہاں سے واپس نہیں آ سکتے
لکیر کے آخری سرے پر

ہمیں ٹھہرا دیکھ کے
لڑکی پریشان ہو جاتی ہے

وہ آئیوری پیپر پر
بہت سے نقطے ڈالتی ہے

اور پھر سرخ پنسل سے
انہیں لکیروں سے ملانے لگتی ہے

تھوڑی ہی دیر میں
ایک نیا بر اعظم نمودار ہو جاتا ہے

لڑکی لکیر کے سرے پر
ٹھہرے ہوئے آدمی کو

اپنے بر اعظم کے ایک جزیرے پر لے جا کر
چھوڑ دیتی ہے

اس جزیرے پر ابھی شاید
بہت زیادہ بادل

بہت زیادہ آسمان
بہت زیادہ خاموشی

اور بہت زیادہ تنہائی ہے
اتنی ساری چیزوں کے

ضرورت سے زیادہ ہونے پر
آدمی ڈر جاتا ہے اور

رونے لگتا ہے
وہ کہتا ہے مجھے ایک شہر چاہیئے

لڑکی وعدہ کرتی اور اسے
اپنی بنائی ہوئی بہت سی تصویریں دکھاتی ہے

جن میں دریا سمندر جنگل اور شہر
ہمیشہ موجود رہتے ہیں

وہ ایک شہر کو اپنے پاس رکھ لیتا ہے
لڑکی ایک اور شہر بناتی ہے

اس شہر میں ابھی کوئی نہیں رہتا
بہت زیادہ خالی گھر

بہت زیادہ خالی راستے
بہت زیادہ خالی آسمان

لڑکی اپنے شہر کو دیکھتی ہے
اور خاموش ہو جاتی ہے

وہ رو نہیں سکتی
اسے خاموش بیٹھا دیکھ کے

آدمی رنگین پنسلیں اٹھا کر
بہت زیادہ خالی شہر میں

رنگ بھرنے لگتا ہے