کسی نیگرو کے تنومند پیکر کی مانند
یہ ساحلی آبنوسی چٹانیں
کہ جن کے کٹاؤ
سمندر کی سفاک موجوں کے بخشے ہوئے
گھاؤ میں
وہ سمندر جو ہے نیلگوں
نیلی آنکھوں کی مانند
اور جس کی لہروں کے ہاتھوں میں
خنجر کے پھل کی طرح جگمگاتا ہوا نقرئی جھاگ ہے
موج در موج یلغار ہے خنجروں کی
چٹانوں کے سینے ہدف ہیں
یہ چٹانیں
جو پابستہ بے زندگی اور تنہا کھڑی ہیں
سمندر کے اس نیلگوں آئینے سے بہت دور
اوپر کھلے آسمان پر
فضا میں بھٹکتے ہوئے ابر پاروں کو
ساکت جہازوں کے عرشوں پہ منڈلانے والے
سفید اور آزاد آبی پرندوں کو
صدیوں سے دیکھے چلی جا رہی ہیں
مگر کیا یہ ممکن نہیں
ان چٹانوں کو اس قید سے اور تنہائی سے
ہو کے آزاد
ان طائروں بادلوں تتلیوں کی طرح
سبزہ زاروں کھلے پانیوں اور روشن فضاؤں میں
لہراتے پھرنے کی حسرت بھی ہو
ہے اگر یوں تو پھر
ان سیہ فام بے بس چٹانوں کو
اذن رہائی بھلا کون دے
نظم
رنگ سیاہ کے نام ایک نظم
حسن اکبر کمال