EN हिंदी
رخت سفر | شیح شیری
raKHt-e-safar

نظم

رخت سفر

شائستہ مفتی

;

خالی کمرے میں مرا رخت سفر رکھا ہے
چند ارمان ہیں پوشیدہ نہاں خانے میں

کرچیاں خواب کی رکھی ہیں حفاظت سے کہیں
اور کچھ پھول چھپا رکھے ہیں انجانے میں

ڈھونڈھتی پھرتی رہی روح کسی ساتھی کو
در بدر ٹھوکریں کھاتا رہا پندار مرا

اپنی مٹی سے بھی اٹھی نہیں سوندھی خوشبو
غیر کے دیس میں لٹتا رہا سنسار مرا

اجنبی آنکھوں میں مانوس وفاؤں کا چراغ
ایک امید پہ جلتا رہا گھپ راتوں میں

جسم مٹی کی طرح گھلتا رہا پانی میں
رنگ بے رنگ ہوئے جاتے تھے برساتوں میں

تیری امید پہ کھولا ہوا در رکھا ہے
خالی کمرے میں مرا رخت سفر رکھا ہے