EN हिंदी
رفیق نادیدہ | شیح شیری
rafiq-e-nadida

نظم

رفیق نادیدہ

شمس تسنیم

;

اک ندا آئی بہت دور سے کانوں میں مرے
پھر خیال آیا کہ یہ وہم مرا ہو شاید

میرے الجھے ہوئے خوابوں کے صنم خانے ہیں
میرے انفاس کی موہوم صدا ہو شاید

میں تصور کے خلاؤں میں بھٹکتا ہوں سدا
شبنمی سوچ کی راس آتی نہیں مجھ کو ہوا

جو مرے شوق تکلم کی طلب گار نہ ہو
اس سے قربت کی تمنا کا تقاضا بے سود

خواب جو آنکھوں میں مجہول نظارہ ہو جائے
اس کے سچ ہونے کا بے معنی دلاسا بے سود

بے ندا خواہش لیلیٰ سے مجھے کیا حاصل
ایسی نادیدہ زلیخا سے مجھے کیا حاصل

کیا خبر اس کے تخیل میں مرا نام نہ ہو
مجھ سے ملنے کی حماقت سے وہ کترا جائے

کیا پتا میری رفاقت اسے منظور نہ ہو
مجھ سے مل بیٹھے مگر جلد ہی اکتا جائے

وصل معمورۂ احساس کے خوابوں میں رہے
حسرت شرف ملاقات سرابوں میں رہے

کیا پتا اس کو مرے قرب کی خواہش ہی نہ ہو
بات کرنی بھی نہ ہو اس کو گوارا مجھ سے

کیا خبر پہلی ملاقات پہ وہ یہ کہہ دے
رکھنا امید نہ ملنے کی دوبارہ مجھ سے

یہ تصور مرے پندار سے ٹکراتے ہیں
میرے جذبات اسی خوف سے مر جاتے ہیں

جو صدا دور سے آئی ہے فقط وہم سے وہ
وہم کے سائے سے امید لگانا ہے فضول

دہر کی تلخ حقیقت کو نظر میں رکھ کر
ریت پر خوابوں کی تصویر بنانا ہے فضول

ایسی تصویر کا ہر رنگ اتر جاتا ہے
وقت کے ساتھ خلاؤں میں بکھر جاتا ہے