ہمارے منے کو چاہ تھی ریڈیو خریدیں
کہ اب ہمارے یہاں فراغت کی روشنی تھی
میں اپنی دیرینہ تنگ دستی کی داستاں اس کو کیا سناتا
اٹھا کے لے آیا تنگ و تاریک کوٹھری سے
قلیل تنخواہ کے چچوڑے ہوئے نوالے
اور ان میں میری
نحیف بیوی نے اپنی دو چار باقی ماندہ شکست آمیز آرزوؤں کا خون ڈالا
نہ جانے کب سے تھا پیارے منے نے ریڈیو کا یہ خواب پالا
یہ ایک ہفتے کی بات ہے اور کل سے منا یہ کہہ رہا ہے
یہ جانور صبح و شام بیکار بولتا ہے
مہیب خبروں کا زہر گیتوں میں گھولتا ہے
گلی میں کوئی فقیر آئے تو اس کو دے دو
مجھے اکنی کا مور لے دو
نظم
ریڈیو
بلراج کومل