مہیب سایوں میں پل رہا ہوں
کہ لاکھ رنج و الم میں محصور ایک جنس گراں ہے اقرار جس کا
آفات کا سبب ہے
میں کیسے بھولوں میں بھول جاؤں کش مکش
میں دھول آنکھوں میں جھونک ڈالوں
تو رات صبح بہار ہوگی
مرا تسلسل مرے مقدر کے ساتھ پیہم رواں دواں ہے
زمین سائے کو جھیل لے گی میں چل پڑوں گا
جو بھید جیبوں پر بوجھ بنتے ہیں
جو بھولی گلیاں مٹا کے روپوش ہو گئی ہے
وہ چھپ گئی
وہ چھپ گئی ہے تو پیر مٹی سفر کا انجام فرض کر لو
جو ایسا کر لو تو صبح چاٹو، زمین چاٹو
مجھے نہ دیکھو کہ میں تو نسل قدیم سالہ سے منتشر ہوں
میں لفظ ڈھونڈوں کہ خود کو تاریک آئنہ میں اتار لوں دیکھوں توڑ ڈالوں
یونہی تسلسل کے ساتھ قسمت کا واسطہ ہے جو آئنہ ہے
میں اس کو توڑوں میں اس کو جوڑوں کہ جس کا اقرار تو گراں ہے
نظم
رات صبح بہار ہوگی
الطاف احمد قریشی