آندھیاں آسمانوں کا نوحہ زمیں کو سناتی ہیں
اپنی گلو گیر آواز میں کہہ رہی ہیں،
درختوں کی چنگھاڑ
نیچی چھتوں پر یہ رقص آسمانی بگولوں کا
اونچی چھتوں کے تلے کھیلے جاتے ڈرامہ کا منظر ہے
یہ اس ظلم کا استعارہ ہے
جو شہ رگ سے ہابیل کی گرم و تازہ لہو بن کے ابلا ہے
آندھیوں میں تھا اک شور کرب و بلا
اور میں نے سنا کربلا۔۔۔کربلا
رات کے سہم سے، ان کہے وہم سے
بند آنکھوں میں وحشت زدہ خواب اترا
صبح اخبار کی سرخیاں بن گیا

نظم
رات
سجاد باقر رضوی