اپنے سائے سے بھی گھبرائیں گے
ایک پل چین نہیں پائیں گے
سوچتے سوچتے تھک جائیں گے
ہانپتے کانپتے چل کر آخر
تیرے دروازے پہ دستک دیں گے
تو ہمیں دیکھ کے مغموم و ملول
اپنی بانہوں کا سہارا دے گی
اور ہم چین سے سو جائیں گے
کل یہ سایہ ہمیں پھر گھیرے گا
کل یہی فکر ہمیں کھائے گی
اور ہم پھر اسی بوجھل غم کی
اپنے سینے میں کسک پائیں گے
اور تو پھر ہمیں پا کر لاچار
اپنی بانہوں کا سہارا دے گی
اور ہم چین سے سو جائیں گے!
نظم
رات، معمول اور ہم
آفتاب شمسی