رات کی آنکھ میں ایک خنجر اگا
رات کالی ہے اجلی ہے پیلی ہے نیلی ہے یا پھر
رات کا کوئی رنگ ہی نہیں ہے
مگر جو بھی ہو رات کالی ہے ایسا سمجھ لیجئے
رات کالی ہے بہتی ہے جیسے ندی اندھے پانی کی کہرے کی یا دھند کی
رات کی آنکھ میں ایک خنجر اگا
ایک وحشی پرندے نے خنجر کا بوسہ لیا
نوک خنجر پرندے کی آنکھوں میں سازش کا نشہ مچا
خواب کی دھند اندھی ندی زرد شعلہ بنی اور بہتی رہی
پھر کہیں زرد رنگوں کے پتھر کی بارش پرائے شہر میں روانہ ہوئی
راحتوں کے مکاں کے منڈیروں سے راحت کے کوے اٹھے
شور کی کنکری سے کنویں بھی بھرے آئنہ آئنہ سی فضا بھی جلی
ایک قصے کی انٹی پرانی نئی پھر کہیں بوم کا آشیانہ بنی
رات کی آنکھ میں ایک خنجر اگا
نظم
رات کی آنکھ میں ایک خنجر اگا
اختر یوسف