میزوں کے شیشوں پر بکھرے خالی جام کے گیلے حلقے
سگریٹوں کے دھوئیں کے چھلے دیواروں پر ٹوٹ چلے ہیں
سارا کمرہ دھواں دھواں ہے ساری فضا ہے مہکی مہکی
دو اک دھندلے دھندلے سر ہیں جھکے ہوئے بے سدھ ہاتھوں پر
رات کا نشہ ٹوٹ رہا ہے
جب آئے تھے اس محفل میں نئے پرانے سب ساتھی تھے
کون کسے پہچانے گا جب ایک اک کر کے اٹھ جائیں گے
یہ محفل ہے رات کے دم تک دن نکلے تو آنکھ کھلے گی
سب اپنے اپنے دامن پر لگے ہوئے دھبے دھو لیں گے
اپنی اپنی نادانی پر یا ہنس لیں گے یا رو لیں گے
نظم
رات کے سائے
راشد آذر