EN हिंदी
رات کے پچھلے پہر | شیح شیری
raat ke pichhle pahar

نظم

رات کے پچھلے پہر

شکیب جلالی

;

شام ہی سے تھی فضا میں کسی جلتے ہوئے کپڑے کی بساند
اور ہوا چلتی تھی جیسے

اس کے زخمی ہوں قدم
دیدۂ مہر نے ان جانے خطر سے مڑ کر

جاتے جاتے بڑی حسرت سے کئی بار زمیں کو دیکھا
لیکن اس سبز لکیر

اس درختوں کی ہری باڑ کے پار
کچھ نہ پایا کوئی شعلہ نہ شرار

اور پھر رات کے تنور سے ابلا پانی
تیرگیوں کا سیہ فوارہ

دیکھتے دیکھتے تصویر ہر ایک چیز کی دھندلانے لگی
دور تک کالے سمندر کی ہمکتی لہریں

ہانپتے سینوں کی مانند کراں تا کراں پھیل گئیں
اور جب رات پڑی

سسکیاں بن گئیں جھونکوں کی صدا
دم بخود ہو گئے اس وقت در و بام

جیسے آہٹ کسی طوفاں کی سنا چاہتے ہوں
آنکھیں مل مل کے چراغوں کی لوؤں نے دیکھا

لیکن اس سبز لکیر
اس درختوں کی ہری باڑ کے پار

کچھ نہ پایا کوئی شعلہ نہ شرار
رات کے پچھلے پہر

ناگہاں نیند سے چونکی جو زمین
اس کے ہونٹوں پہ تھی غم ناک کراہ

کرب انگیز کراہ
اس کے سینے پہ رواں

بوٹ لوہے کے گمکتے ہوئے بوٹ
جس طرح کانچ کی چادر پہ لڑکھتی ہوئی پتھر کی سلیں

ہر قدم ایک نئی چیخ جنم لیتی تھی
خاک سے داد ستم لیتی تھی