EN हिंदी
رات کے پڑاؤ پر | شیح شیری
raat ke paDaw par

نظم

رات کے پڑاؤ پر

تنویر انجم

;

رات نے اپنی مہربان باہیں پھیلا دیں
اور سسکیوں کا جوار بھاٹا تاریکیوں سے لپٹ گیا

تصویروں کو پہچاننے والے دلوں کے دیپک بجھتے گئے
اور ان ساری انجان تصویروں کے درمیان

حیران آنکھیں ہیں
اور سسکیوں کا جوار بھاٹا

سسکیاں جنہیں زندگی کے طویل دنوں نے پناہ نہ دی
اور کرنوں پر بھاگتے ہوئے

کسی نے نہیں سوچا
نشیب میں گھاٹیوں کے درمیان رات ٹھہرتی ہے

کم عقل مسافر قدموں کی سمجھ میں نہ آیا
کہ زندگی چرندوں اور حد نگاہ تک پھیلی گھاس کا معاہدہ نہیں ہے

آواز کی سمتیں متعین ہو گئیں
اور تقلید کے آسیب لفظوں کے پاک دامن سیاروں کو روندتے چلے گئے

انتھک محنتوں کی سمجھ میں کچھ نہ آیا
یہاں تک کہ سوچ کی سنہری روشنیاں تھک کر گر پڑیں

نشیب اور نشیب کی جانب
جنون کا نشیب

جہاں رات ٹھہرتی ہے
اور پر اسراریت کا سانحہ

جہاں سرابوں کے اسرار کھل گئے
اور جہاں مسافر قدموں اور انتھک محنتوں اور سسکیوں کے جوار بھاٹا کی دوستی ہے

یہ رات کا پڑاؤ ہے جہاں
آنکھوں کی تمام ان گنت سڑکیں

خدا حافظ کی بھول بھلیوں میں گم ہو جاتی ہیں