EN हिंदी
رات کے بارہ بجے | شیح شیری
raat ke bara baje

نظم

رات کے بارہ بجے

مخدومؔ محی الدین

;

رات کے کوئی بارہ بجے ہوں گے
گرمی ہے

سڑکوں پہ کوئی نہیں
بوڑھا درویش بھی جا چکا ہے

اس جذامی بھکارن کی گاڑی
بھی نظروں سے اوجھل ہے

راستہ صاف ہے
ہوٹلوں سے نکلتی ہوئی لڑکیاں ہیں

نہ لڑکوں کے جھرمٹ
منڈیروں پر

دل میں
نہ دل کا دھڑکنا

نہ بھوکی نگاہیں
نہ سیٹی

قمقمے
گردنیں تانے

چشم بر براہ ہیں
کوئی گزرے تو گل ہو کے

ان کا تماشا کریں
سرکتے سرکتے

وہ فٹ پاتھ سے
کوئی چکر کی ہریالی پر آ جمے ہیں

چاند نکلا
تو چاروں نے چلایا

(سانپ کے منہ سے نکلا ہوا جیسے پیلا چھچھوندر)
لو چاند نکلا

وہ چاند تنہا ہے
اک درد سب کے دلوں میں پگھلنے لگا

ان کی نظروں نے بوسے لیے چاند کے
چاند کی پیٹھ کو تھپتھپایا

بڑے زور سے
جوش و مستی کے عالم میں

شیشے میں جتنی بچی تھی
وہ سب بانٹ کر

قہقہے مار کے
پی گئے

اور گلے مل کے
اک دوسرے کو بہت دور تک

چومتے بھی رہے
ناچتے ناچتے

چاروں رونے لگے
ہر ایک کے منہ سے نکلا

!یارو
ماں یاد آتی ہے، جاتا ہوں

میں نے تورات و انجیل و قرآن میں
یرمیہ ہاجرہ اور یعقوب

کے کرب کی داستانیں پڑھی ہیں
ان کا رونا سنا ہے

اور رویا بھی ہوں
آج بھی رو رہا ہوں