EN हिंदी
رات کا تاج | شیح شیری
raat ka taj

نظم

رات کا تاج

قمر جمیل

;

شہر کی گلیوں کے روشن زاویے
رات کی تنہائیوں کے ہم سفر

آسماں کے نیلے نیلے حاشیے
چاند کی رعنائیوں کے نوحہ گر

تیرگی لپٹی ہوئی دیوار سے
صبح کی تابانیوں کی منتظر

راستوں کے پیچ و خم بازار سے
لوٹ کر آئے ہوں جیسے بار بار

ایک ویرانی ہے میری غم گسار
کچھ سیہ کچھ سرخ کچھ خاکستری

رنگ کے کتوں پہ اجلی دھاریاں
جن کی شریانوں میں شوریدہ سری

اور دریوزہ گری کا امتزاج
یہ سماں اور رات کی جادوگری

چاند کا لے کر چلی ہاتھوں میں تاج