EN हिंदी
رات ہر بار لیے | شیح شیری
raat har bar liye

نظم

رات ہر بار لیے

گلناز کوثر

;

رات ہر بار لیے
خوف کے خالی پیکر

خوں مرا مانگنے
بے خوف چلی آتی ہے

اور جلتی ہوئی آنکھوں کے
تحیر کے تلے

ایک سناٹا
بہت شور کیا کرتا ہے

کچھ تو کٹتا ہے
تڑپتا ہے

بہاتا ہے لہو
اور کھل جاتے ہیں

ریشوں کے پرانے بخیے
رات ہر بار مری

جاگتی پلکیں چن کر
اندھے گمنام دریچوں پہ

سجا جاتی ہے
اور دھندلائے ہوئے

گرد زدہ رستوں میں
ایک آہٹ کا سرا ہے

جو نہیں ملتا ہے
آسماں گیلی چٹانوں پہ

ٹکائے چہرہ
سسکیاں لیتا ہے

سہمے ہوئے بچے کی طرح
اور دریچوں پہ دھری

کانپتی پلکیں میری
گل زمینوں کے نئے

خواب بنا کرتی ہیں