فسردہ رات ستاروں کے قافلوں کو لئے
خموش راہوں کی خوابیدہ مستیوں کو سلام
نہ جانے کون سی منزل کو ہے رواں کب سے
تمام دہر پہ سایہ فگن یہ رات جسے
کیا ہے میں نے مقدر خیال غمگیں کا
اک ایک اشک سے رہ رہ کے جس کو دھویا ہے
اداس اداس سریلے سریلے نغموں سے
اک ایک نقش سنوارا ہے جس کے چہرے کا
کبھی جو لمحہ تصور سے چھو گیا کوئی
غم خیال بنا کر سمو دیا جس میں
جو اپنے ساتھ ستاروں کے قافلوں کو لئے
نہ جانے کون سی منزل کو ہے رواں کب سے
یہ آگہی کا کوئی خواب ہی نہ ہو ورنہ
نظر پکار اٹھے گی کہ اہل فکر و خیال
تمام سوچ اسی رات کا اندھیرا ہے
نظم
رات
عابد عالمی