رات ابھی آدھی گزری ہے
شہر کی رونق بجھی نہیں ہے
تھکے نہیں ہیں اس محفل کے ساز ابھی تک
یاد کے بالا خانوں سے آتی ہے کچھ آواز ابھی تک
میں کہ زوال شہر کا نوحہ لکھنے والا
ایک پرانا قصہ گو ہوں
علامتوں کے جنگل سے
صندل کی لکڑی ہاتھ میں لے کر
ایوانوں سے گزر رہا ہوں
سازندے اب
آخری تھاپ کی محرومی
شب کی میزاں پر تول رہے ہیں
دھیمے سروں میں
سست پرندے
اپنی بولی بول رہے ہیں
ادھر گلی میں
مورخین باب مشرق
نئی کتابیں کھول رہے ہیں
رات ابھی آدھی گزری ہے
لیکن صبح نو کی کرنیں
اپنا رستہ ڈھونڈھتی
مصر کے بازاروں میں اتر رہی ہیں
آدھی رات کے بعد
طبل بجتا ہے تازہ منظر کا
مجھے بھی سارا حساب برابر کرنا ہے اپنے گھر کا
نظم
رات ابھی آدھی گزری ہے
عین تابش