بارہ دری میں چاند سر شام ہو گیا
رہ داریوں کے پردے اڑاتی رہی ہوا
مشعل تلے غلام کی تلوار کھو گئی
برجی پہ جب ستارہ گرا
رات تھی بہت
اور شاہ وقت اپنے ہی نشے میں مست تھا
پشواز نیچے دائرہ اس کو نہیں ملا
بارہ دری میں آگ لگی تھی
لگی رہی
اور بانسری کے نے کہیں خاموش رہ گئی
اور چاند شاہزادی کے قدموں میں سو گیا
پھر یوں ہوا کہ درد سے
آنسو ہوئے گلاب
اور آنکھیں ہوئیں چراغ
یلغار راستوں پہ رہی
آندھیوں کی شب
اور دھول آسمان کو برباد کر گئی
سب آنگنوں کے کچے گھڑوں میں بھری ہے ریت
پانی لہو ہوا
سرشار و مست کیسے
زمیں پر گرا ہے تاج
سو اس کے بعد چال و تاریخ نے چلی
یلغار برق و باد ہوئی ہے گلی گلی
بوسوں میں بھیگتی ہوئی تنہائیوں کی یاد
اور صبح کی اذاں سے اڑے دلبری کے رنگ
اور خواب جنگلوں میں بھٹکتے رہے کہیں
بالاحصار
شہر پنہ
بام و در
محل
طوفانی بارشوں میں بھی کھلتے رہے گلاب
ہم جفت سارا شہر
بارہ دری میں زندگی بے نام ہو گئی
نظم
راہداری میں گونجتی نظم
فہیم شناس کاظمی