سانجھ سویرے موج میں اپنی
بہتا جائے وقت کا دھارا
جیسے ساگر گہرا
جانے کہاں ہے منزل اس کی
جانے کہاں کنارا
وقت کے اس گہرے ساگر میں
ڈول رہی ہے جیون ناؤ
پیچھے بھی منجدھار ہے اس کے
آگے بھی منجدھار ہے اس کے
اور اس ناؤ میں بیٹھا ہے اک سنسار
جانے کو اس پار
اور یہ ناؤ پل کے پل میں
یوں کھائے ہچکولے
شام کے بڑھتے اندھیاروں میں
بنا پریتم جیسے
طاری کا من ڈولے
ناؤ میں بیٹھے سارے مسافر
ہیں اک گہری سوچ میں گم
لیکن سب کے دل میں کھلے ہیں
کچھ آشا کے پھول
جن پر جمتی جائے پل پل
ایک نراش کی دھول
جس کے کارن ہو جاتا ہے جیون
بھاگ بھاگ میں لکھی بھول
لیکن کون یہ جانے
کس کے بھاگ میں لکھے ہیں
کس کس کے دکھ سکھ کے بھید
کس کے ہاتھ کی ریکھاؤں میں
پیاس لکھی ہے
کس کی قسمت میں پیمانے
کون یہ جانے
اور اگر کچھ جان بھی جائے کوئی
اپنی ریکھاؤں میں لکھی پیاس نہ کوئی مانے
لیکن چاہے کوئی مانے، چاہے کوئی نہ مانے
سانجھ سویرے موج میں اپنی
بہتا جائے وقت کا دھارا
اور اس دھارے سنگ چلی ہے
ڈگ مگ ڈگ مگ جیون ناؤ
نظم
راگ گیان
مبین مرزا