EN हिंदी
رائیگانی کی بشارت | شیح شیری
raegani ki bashaarat

نظم

رائیگانی کی بشارت

قاسم یعقوب

;

ہوا نے کنج گم گشتہ میں آ کے
میری پلکوں پر جمی ویرانیوں کی خاک کو جھاڑا

اور اپنی شبنم افشانی سے میری بانجھ پلکوں کو
گہر باری میں بدلا

یہ سمجھتی ہے
میں اس کے ہاتھ میں انگلی تھما کر

پھر کسی نا دیدہ پربت کے سفر کی ضد کروں گا
تا ابد ہمراہ پھروں گا

وقت اک ڈیسپوزیبل رشتے کی صورت ہے
جو استعمال ہوتا ہے

بسر ہوتا نہیں۔۔۔
مجھے تکمیل کی سرحد پہ لا کے رائیگانی کی بشارت دی گئی ہے

میں جو ریزہ ریزہ ملبہ بنتی آبادی کا نوحہ خواں ہوں
میرے ہاتھ کی خواہش

قلم سے ،پھول کی پتی بنانا چاہتی ہے۔۔۔
مگر میں ملبے کی اینٹوں کی گنتی کر رہا ہوں

گھر کے ویرانے میں بیٹھا
یاد آنے والے لمحوں کو

بھلانے کے لیے دہرا رہا ہوں