میں نے دیکھی ہیں کسی چہرے میں ایسی آنکھیں
جن میں میرے کئی ان جانے سوالوں کے جواب
ایسی آسانی سے سچائی کے در کھولتے ہیں
آسمانوں میں زمینوں کے صنم بولتے ہیں
میں نے جانا ہے کہ لفظوں کے طلسمی دھاگے
کیسے تاریخ کو عنوان نئے دیتے ہیں
کیسے آ ملتے ہیں صدیوں کی جدائی کے اسیر
کس طرح خواب نئے عکس سجا لیتے ہیں
یوں ہی اس حیرت ہستی کی پناہوں میں کہیں
زندگی سب کے لیے اپنے ہنر کھولتی ہے
ہاں مگر خاص قدم اٹھتے ہیں راہوں میں تبھی
یہ زمیں چاند ستاروں سے ادھر ڈولتی ہے
اور اس سمت جو دیکھوں وہ نظر بولتی ہے
میں بھلا کون ہوں کردار ہوں کس خاکے کا
میرے ہونے سے جہاں بھر کو مصیبت کیا ہے
کیسے دوزخ کا پتہ مانگتی ہوں اس کے عوض
میری ہستی کی زمانے میں حقیقت کیا ہے
میں نے دیکھا ہے مرا کل کسی گزرے پل میں
میں نے جانا ہے کہاں میرا قدم ٹھہرا ہے
اس کے امروز کو دیکھا ہے تو یہ علم ہوا
میری تقدیر مرے فردا میں رکھا کیا ہے
نظم
قرۃ العین حیدر
عنبرین صلاح الدین