EN हिंदी
قربانی کے بکرے | شیح شیری
qurbani ke bakre

نظم

قربانی کے بکرے

سید محمد جعفری

;

پھر آ گیا ہے ملک میں قربانیوں کا مال
کی اختیار قیمتوں نے راکٹوں کی چال

قامت میں بکرا اونٹ کی قیمت کا ہم خیال
دل بیٹھتا ہے اٹھتے ہی قربانی کا سوال

قیمت نے آدمی ہی کو بکرا بنا دیا
بکرے کو مثل ناقۂ لیلیٰ بنا دیا

بکرے کے پیچھے پیچھے ہیں مجنوں کا بھر کے سوانگ
گر ہو سکے خریدئیے بکرے کی ایک ٹانگ

قیمت جو ٹانگ کی ہے لگا دے گی پھر چھلانگ
''مجھ سے مرے گنہ کا حساب اے خدا نہ مانگ''

''ٹیڑھا لگا ہے قط قلم سرنوشت کو''
مہنگائی میں چلا ہے یہ بکرا بہشت کو

دیہات سے جو شہر میں بکروں کو لائے ہیں
معلوم ہو رہا ہے وہ جنت سے آئے ہیں

قیمت نے آسمان کے تارے دکھائے ہیں
بکرا نہیں خریدا گنہ بخشوائے ہیں

قربانی ایسے حال میں امر محال ہے
بکرا ''تمام حلقۂ دام خیال ہے''

قربانی ہو بھی جائے مگر کھنچ رہی ہے کھال
اے گوشت کھانے والو ذرا خود کرو خیال

بکرے کے ساتھ ہوتا ہے گاہک کا انتقال
گر قیمتیں یہی ہیں تو جینے کا کیا سوال

ہیں گلہ بان لوگوں کے پیچھے پڑے ہوئے
اور بکرا لے کے ہم بھی ہیں مرغے بنے ہوئے

چوراہوں پر کھڑے ہوئے بکروں کے ہیں جو غول
تو ان کے منہ کو کھول کے دانتوں کو مت ٹٹول

قیمت میں ورنہ آئے گا فوراً ہی اتنا جھول
سونے کا جیسے بکرا ہو ایسا پڑے گا مول

خود ہی کہے گا بکرا کہ تجھ میں اگر ہے عقل
''اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعد قتل''

بکرے تمام راہ میں ہنکارتے چلے
بنگلوں کے بیل بوٹوں پہ منہ مارتے چلے

جس گھر میں گھس گئے وہیں افطارتے چلے
اور جب ہلے جگہ سے تو سسکارتے چلے

گھر والے کہہ رہے ہیں کہ باہر نکال دو
بکرے مصر ہیں اس پہ کہ ڈیرہ ہی ڈال دو

بکرا جو سینگ والا بھی ہے اور فسادی ہے
اس نے سیاسی جلسوں میں گڑبڑ مچا دی ہے

چلتے ہوئے جلوس میں ٹکر لگا دی ہے
اور ووٹروں میں پارٹی بازی کرا دی ہے

بکرے ہیں لیڈروں کی طرح جن پہ جھول ہے
ہنکارتے ہیں چپ بھی کرانا فضول ہے

بکرے جو پھر رہے ہیں سڑک پر ادھر ادھر
جلسوں میں اور جلوسوں میں کرتے ہیں شب بسر

بکرے کی پوری نسل سے بیزار ہیں بشر
جمہوریت کے بکروں کی لے کیا کوئی خبر

ڈر ہے کہ بکرا بھوک کی ہڑتال کر نہ جائے
منحوس سب کے واسطے یہ سال کر نہ جائے

قربانیوں کا دور ہے بکروں کی خیر ہو
ہے اور بات حالت انسان غیر ہو

قرضے میں اس کا جکڑا ہوا ہاتھ پیر ہو
لیکن نصیب بکرے کو جنت کی سیر ہو

بکرے کے سر پہ آئے گی شامت ہی کیوں نہ ہو
''اس میں ہمارے سر پہ قیامت ہی کیوں نہ ہو''

بکروں کی اتنی گرمئ بازار دیکھ کر
اور قیمتوں کی تیزئ رفتار دیکھ کر

بکرا خریدا سستا سا بیمار دیکھ کر
جو مر گیا چھری پہ مری دھار دیکھ کر

میرے نصیب میں نہ تھی قربانی کی خوشی
اس مصلحت سے کر لی ہے بکرے نے خودکشی