EN हिंदी
قصۂ درد | شیح شیری
qissa-e-dard

نظم

قصۂ درد

عزیز تمنائی

;

چاند نے مسکرا کر کہا
دوستو

قصۂ درد چھیڑے سر راہ کون
پھر بھی تارے مصر تھے

کہ ہم آج کی شب سنیں گے
وہی ان سنی داستاں

دیر تک چاند سوچا کیا
دور آفاق کی سمت دیکھا کیا

اور تاروں کی آنکھیں چھلکتی رہیں
رات کے دامن تر کو

آہستہ آہستہ
لمحوں کا ٹھنڈا لہو

جذب ہو ہو کے رنگین کرتا رہا
ناگہاں ایک نادیدہ زریں رقم

دست سیمیں بڑھا اور افق تا افق
ایک جنبش میں کھینچے ہزاروں کروڑوں طلائی خطوط

ڈوب کر رہ گئے شب کے سارے نقوط
چشم آفاق سے

اولیں قطرۂ درد ٹپکا
کسی برگ نوخیز پر

عکس انجام رخسار آغاز پر