ہم کام کے نغمے گاتے ہیں بیکار ترانہ کیا جانیں
جو صرف عمل کے بندے ہیں وہ بات بنانا کیا جانیں
رگ رگ میں لہو کو گرماتے جاتے ہیں وطن کی جے گاتے
ہم عہد جوانی کے ماتے بوڑھوں کا زمانہ کیا جانیں
طوفان میں کشتی کھیتے ہیں کہسار سے ٹکر لیتے ہیں
ہم جنگ میں سر دے دیتے ہیں ہم پاؤں ہٹانا کیا جانیں
بگڑوں کو بنانے آئے ہیں غربت کو مٹانے آئے ہیں
ہم آگ بجھانے آئے ہیں ہم آگ لگانا کیا جانیں
دیوار وہ کالے زنداں کی تصویر وہ ظلم انساں کی
شاہد ہے ہمارے ارماں کی ہم جان چرانا کیا جانیں
وہ حسن و جوانی کی راتیں وہ کیف و ترنم کی باتیں
وہ لعل و گہر کی برساتیں ہم لوگ منانا کیا جانیں
افلاس کے مارے بندوں کے کس طرح بلکتے ہیں بچے
جو دیکھ رہے ہیں آنکھوں سے وہ جشن منانا کیا جانیں
وہ اور ہیں جو کرتے ہیں ستم خود شاد ہیں دنیا محو الم
ہم زخم پہ رکھتے ہیں مرہم ہم زخم لگانا کیا جانیں
بے خوف چلے سنگینوں پر اور روک لی گولی سینوں پر
لکھا ہے ہماری جبینوں پر ہم سر کا جھکانا کیا جانیں
نظم
قومی گیت
شمیم کرہانی