کنوارے کھیت میری خواہشوں کے
تشنگی کی دھوپ میں
جلتے ہیں
سیم اور تھور مایوسی کے
کالے قہر کی صورت
لہو کا ایک اک قطرہ
رگوں سے چوستے جاتے ہیں
پیلے موسموں کی چپ
بنی ہے بھاگ کی ریکھا
کہ صدیوں سے پڑا ہے قحط گیتوں کا
جو فصل کٹتے وقت گاتی ہیں
تھرکتی ناچتی
بستی کی بالائیں
یہاں صدیوں سے برکھا رت کو
جیون کا ہر اک لمحہ
ترستا ہے
یہاں کھیتوں کے لب کی پپڑیوں پر
تشنگی کا
قطرہ قطرہ بس ٹپکتا ہے

نظم
قطرہ قطرہ تشنگی
صبا اکرام