پھیل کر پھر شب تاریک ہوئی بحر سیاہ
قطرہ قطرہ لب تنہائی سے ٹپکے احساس
اور پلکوں کی صلیبوں پہ وہ گزرے ہوئے دن
جیسے کھنڈروں کی فصیلوں پہ ٹنگا ہو اتہاس
دفن ہے راکھ کے انبار تلے عزم کی لاش
جستجو اس کی کرے آج کسے فرصت ہے
روشنی مانگ نہ سورج سے نہ ستاروں سے
تیرہ و تار مکانوں میں بڑی راحت ہے
اب تو الفاظ کے چہروں کی خراشیں پڑھ کر
وقت کو ٹال دیا جائے گداگر کی طرح
ورنہ وہ لمس جو شبنم سے سبک تر تھا کبھی
آج پھر سینے پہ گر جائے گا پتھر کی طرح
نظم
قطرہ قطرہ احساس
چندر بھان خیال