قسم اس بدن کی
اور قسم اس بدن پر کھلے پھولوں کی
رت بہار کی ہے اور ہوا کی رانوں میں مہک کھلی ہے
اب تک۔۔۔
بریزئیر میں تنی ان چھاتیوں سے
پرندے اپنی چونچوں میں شیر بھر کے لاتے ہیں
اور محبت کی ابدیت کے گیت گاتے ہیں۔''
لے میں جن کی حرارت ان شبوں کی ہے
گزریں جو قربت میں تیرے بدن کی
گہری آنکھوں والی غم گسار شبیں
بطن میں جن کے صدیاں گونجتی تھیں
لیکن۔۔۔ ابدیت کس کو تھی
ماسوا اس لہراتی جنبش کے
(جیسے تان پورے پہ غیر ارادتاً پڑ گئی ہو)
اور تا دیر درد میں ڈوبی آواز
تیرے بدن سے ابھرتی تھی
یہ درد کیا تھا؟
کہ ہر صبح لذت جس کی لبوں پہ
پپڑیوں کی مانند جمی ہوتی
تیرے لبوں پہ
میرے لبوں پہ
بہار بہت تھی چار سو باغوں میں
اور سڑکوں کی ویرانی میں
شامیں جو ایستادہ تھیں
دیواروں کی مانند ہمارے مابین تنی رہیں
تاریک شبوں میں جب
سرما کی تیز ہوائیں چلتی تھیں
اداسی تیری پنڈلیوں میں سرسراتی تھی
تیرے کانپتے بدن کی خوشبو
لہریے لیتی سرشاری میں
یوں ڈوبتی ابھرتی تھی
گویا۔۔۔!
اور میری انگلیوں کی پوروں میں سلگتی تھی جو آگ
تیری چھاتیوں کی گولائیوں کو ماپتی
پیمائش تیرے بدن کی تھی
پیمائش زندگی کی
دن بیت گئے!!
اور خواب ہمارے اپنے اپنے بدن کنارے
جلتے رہے چراغوں کی طرح
اور میں کہ اب تک
یاد کے پیڑوں سے محبتوں کے پھول چن چن کر
دل کے طشت میں دھرتا جاؤں
تیری موجودگی کی طلب میں
نظم
قسم اس بدن کی
زاہد حسن