حاملہ بدلیوں نے
اپنے کٹے پھٹے کناروں میں
چاندی کی جھالریں لٹکا رکھی تھیں
اور اپنی دلائیوں کے بخیوں میں
رنگوں کی بچکاریاں چھپا رکھی تھیں
افق سرخ تھا
جیسے شہر کے شہدے
ڈرپوک دکان داروں پر
اپنی دھاک جمانے
نئی کٹائیاں کمانے پر مقرر ہوں
سوڈے کی بوتلوں سے
ایک دوسرے پر حملہ آور ہوں
اور فٹ پاتھوں پر
شیشوں کے ٹکڑوں سے
اجنبی راہگیروں کے
ننگے پیروں سے
صرف عناب دستیاب ہو
زمین گلنار بنے
بس اسی طرح کا رنگ آسمان میں
کھلا ہوا ملا
رات کی فصیل کے قریب
شام کا محاصرہ کیے
پڑا ہوا تھا میں
*
اے علامہ آج
تیرے کسان کی کافر بیٹی
اپنے گیت اتار کے
میری سمت سے
اپنا بدت پھیرے
اسی نیم برہنہ خونیں منظر میں
اگی ہوئی تھی
وادی کے دیے میں
شعلے کی طرح
لرز رہی تھی
اس کی ننگی پیٹھ پر
تنی ہوئی اسپینی ریڑھ کی ہڈی کے
آس پاس
مضطرب چٹکیوں بھرے
رسیلے کولھوں کے
جلالی تناؤ نے
دو ننھے ننھے قوس بنا دیے تھے
جن میں جاتے دن کی روشنی
پارے کی طرح
پھسل پھسل کر جمع ہو رہی تھی
اور ان گونگے حلقوں کے
تنگ دان میں
جان پڑ گئی تھی
آج انہی کوسوں میں
اپنی آنکھیں چھوڑ چلا
اور اپنے غم بھول گیا
میرے لوگ نئی تہذیب
مسخر کرنے آئے تھے
وہ تاریخ ہمیشہ یاد رہی
اس کا سوگ ابھی تک ہے
نظم
قرطبہ کا محاصرہ
ساقی فاروقی