قید ہے قید کی میعاد نہیں
جور ہے جور کی فریاد نہیں داد نہیں
رات ہے رات کی خاموشی ہے تنہائی ہے
دور محبس کی فصیلوں سے بہت دور کہیں
سینۂ شہر کی گہرائی سے گھنٹوں کی صدا آتی ہے
چونک جاتا ہے دماغ
جھلملا جاتی ہے انفاس کی لو
جاگ اٹھتی ہے مری شمع شبستان خیال
زندگانی کی ایک اک بات کی یاد آتی ہے
شاہراہوں میں گلی کوچوں میں انسانوں کی بھیڑ
ان کے مصروف قدم
ان کے ماتھے پہ تردد کے نقوش
ان کی آنکھوں میں غم دوش اور اندیشۂ فردا کا خیال
سیکڑوں لاکھوں قدم
سیکڑوں لاکھوں قدم
سیکڑوں لاکھوں دھڑکتے ہوئے انسانوں کے دل
جور شاہی سے غمیں جبر سیاست سے نڈھال
جانے کس موڑ پہ یہ دھن سے دھماکا ہو جائیں
سالہا سال کی افسردہ و مجبور جوانی کی امنگ
طوق و زنجیر سے لپٹی ہوئی سو جاتی ہے
کروٹیں لینے میں زنجیر کی جھنکار کا شور
خواب میں زیست کی شورش کا پتہ دیتا ہے
مجھے غم ہے کہ مرا گنج گراں مایۂ عمر
نذر زنداں ہوا
نذر آزادیٔ زندان وطن کیوں نہ ہوا
نظم
قید
مخدومؔ محی الدین