EN हिंदी
قید حیات و بند غم | شیح شیری
qaid-e-hayat o band-e-gham

نظم

قید حیات و بند غم

شاذ تمکنت

;

آخر شب کی اداسی نم فضاؤں کا سکوت
زخم سے مہتاب کے رستا ہے کرنوں کا لہو

دل کی وادی پر ہے بے موسم گھٹاؤں کا سکوت
کاش کوئی غم گسار آئے مداراتیں کرے

موم بتی کی پگھلتی روشنی کے کرب میں
دکھ بھرے نغمے سنائے دکھ بھری باتیں کرے

کوئی افسانہ کسی ٹوٹی ہوئی مضراب کا
فصل گل میں رائیگاں عرض ہنر جانے کی بات

سیپ کے پہلو سے موتی کے جدا ہونے کا ذکر
موج کی، ساحل سے ٹکرا کر بکھر جانے کی بات

دیدۂ پر خوں سے کاسہ تک کی منزل کا بیاں
زندگانی میں ہزاروں بار مر جانے کی بات

عدل گاہ خیر میں پا سنگ شر کا تذکرہ
آئینہ خانے میں خال و خط سے ڈر جانے کی بات

کاش کوئی غم گسار آئے مداراتیں کرے
موم بتی کی پگھلتی روشنی کے کرب میں

دکھ بھرے نغمے سنائے دکھ بھری باتیں کرے