شہزادہ لپٹتا ہے مجھ سے اور دور کہیں
چڑیا کو سانپ نگلتا ہے
سانسوں میں گھلتی ہیں سانسیں اور!
زہر اترتا جاتا ہے
لمحات کے نیلے قطروں میں
کانوں میں مرے رس گھولتا ہے شبدوں کا ملن! اور من بھیتر
اک چیخ سنائی دیتی ہے
جلتی پوروں میں کانپتی ہے بے مایہ لمس کی خاموشی
اس کے ہاتھوں سے لکھتی ہوں میں عشق بدن کی مٹی پر
اس کی آنکھوں کے گورستاں میں دیکھتی ہوں اک قبر نئی
اور شہزادے کے سینے پر سر رکھ کر سو جاتی ہوں

نظم
قبر
نینا عادل