کیوں نہیں سونے دیتے مجھ کو
جب زندہ تھا تب پر بھی یہی کرتے تھے
یہاں تو سکون دو مجھے
ہر روز چلے آتے ہو دفنانے
ایک مردہ لاش کو زندہ کر جاتے ہو
ابھی تو گلا نہیں میں پوری طرح
سنا ہے کچھ دن میں
کھود کر مجھ کو
ایک چھوٹے بکسے میں بھر دو گے
اب یہی بچا ہے
مردوں کو بھی چین کی سانس نا لینے دینا
وو جو کراس
میرے سینے پر لگایا ہے
ہٹا دو اسے
چبھتا ہے مجھے
کروٹ بھی نہیں لے پاتا
کیونکہ جگہ کم ہے یہاں
پڑوس کی قبر میں
ایک نیا مسافر آیہ ہے
بڑا خوش مزاج ہے
کہتا ہے یے زندگی
جینے میں بڑا مزا آتا ہے
اب منا کر دو لوگوں کو
نا جلایا کرے موم بتی
اس کی پگھلتی بوندیں
جب گرتی ہے میرے اوپر
تو چھالے نکل آتے ہیں
چلو اب چلتا ہوں
آج ساری رات
جاگ کر کاٹ دی
چلو اب چل کر سوتا ہوں
نظم
قبر میں زندہ ہوں
کمل اپادھیائے