EN हिंदी
قاتل | شیح شیری
qatil

نظم

قاتل

محسن آفتاب کیلاپوری

;

ڈایری روز بلاتی ہے مجھے لکھنے کو
ایک مدت سے کوئی شعر نہیں لکھا ہے

مرے سینے میں بھی اک درد اٹھا جاتا ہے
تیری یادیں بھی بہت ذہن میں چلاتی ہیں

پین کاغذ میں لوں
اور کوئی نیا شعر لکھوں

بیٹھ جاتا ہوں سو میں ڈایری اپنی لے کر
مصرعے لکھتا ہوں

مٹاتا ہوں
میں پھر لکھتا ہوں

پھینک دیتا ہوں پھر ان مصرعوں کے کاغذ کو میں گولا کر کے
پھر مرے کمرے سے

آہوں کی صدا آتی ہے
دیکھتا ہوں

تو وہی سارے ادھورے مصرعے
ڈسٹ بن میں پڑے دم توڑ رہے ہوتے ہیں

میں پس و پیش میں پڑ جاتا ہوں
اس لمحہ تب

اور سمجھ میں نہیں آتا ہے مجھے اتنا بھی
میں کے شاعر ہوں کوئی

یا کے کوئی قاتل ہوں