EN हिंदी
قاتل بے چہرہ | شیح شیری
qatil-e-be-chehra

نظم

قاتل بے چہرہ

سلیمان اریب

;

شراب پی کے یہ احساس مجھ کو ہوتا ہے
کہ جیسے میں ہی خدا ہوں

خدا کا بیٹا ہوں
خدائی جس کو چڑھاتی رہی ہے سولی پر

شراب پی کے یہ احساس مجھ کو ہوتا ہے
کہ جیسے عرصۂ پیکار حق و باطل میں

ہمیشہ میں ہی جو مظہر رہا ہوں نیکی کا
شکست کھاتا رہا

پیا ہے زہر بھی میں نے کٹایا ہے سر بھی
بجھی نہ پیاس مگر خنجر و سناں کی ابھی

نہ جانے کتنی دفعہ اور قتل ہونا ہے
مجھے بہ پاس دگر

شراب پی کے یہ احساس مجھ کو ہوتا ہے
کہ جیسے میں ہی زمانے میں ایک قاتل ہوں

اور ایسا قاتل بے چہرہ جس کو صدیوں سے
زمانہ ڈھونڈ رہا ہے

مگر نہیں ملتا