دور سے چل کے آیا تھا میں ننگے پاؤں ننگے سر
سر میں گرد زباں میں کاٹنے پاؤں میں چھالے ہوش تھے گم
اتنا پیاسا تھا میں اس دن جتنا چاہ کا مارا ہو
چاہ کا مارا وہ بھی ایسا جس نے چاہ نہ دیکھی ہو
اتنے میں کیا دیکھا میں نے ایک کنواں ہے ستھرا سا
جس کی من ہے پکی اونچی جس پر چھاؤں ہے پیڑوں کی
چڑھ کر من پر جھانکا میں نے جوش طلب کی مستی میں
کتنا گہرا اتنا گہرا جتنی ہجر کی پہلی رات
کیسا اندھا ایسا اندھا جیسی قبر کی پہلی رات
کنکر لے کے پھینکا تہہ میں
پانی کی آواز نہ آئی
اس کا دل بھی خالی تھا
نظم
پیاس
خورشید الاسلام