ہجر کی اوک سے
درد پیتے ہوئے
پیاس بڑھ جاتی ہے
ہولے جڑوں تک جاتی ہے
ہر طرف اپنے خیمے لگا لیتی ہے
روح میں جسم میں
ذہن میں سوچ میں
نیند میں خواب میں
خون میں آنکھ میں
روح کے ساحلوں
جسم کے سب جزیروں پہ بکھری ہوئی
ذہن کی کھیتیوں
سوچ کے گلستانوں میں اگتی ہوئی
نیند کے دوش پر
خواب کے پنکھ پھیلائے اڑتی ہوئی
خون کے سرخیوں میں ہمکتی ہوئی
آنکھ کے آسماں پر چمکتی ہوئی
پیاس ڈھل جاتی ہے
ہجر کی اوک میں
نظم
پیاس دائرہ بناتی ہے
حمیدہ شاہین